Friday, 15 June 2018

"میرا جسم۔میری مرضی " یہ بات یہ معاشرہ شعور کی جس سطح پر سمجھ سکے گا ، اس سے ابھی بہت دور ہے۔  یہ بات " میرا جسم ،.  تم سب کی مرضی نہیں ہے " سے شروع ہو گی۔  بازاروں میں ، دکانوں میں ، سڑک پار کرتے ہوے ، حتی کہ ، اور یہ لکھتے ہوے مجھے بہت دکھ ہے ، ہسپتالوں میں بھی ، چاہے میں مشر قی لباس میں ہوں یا  مغربی لباس میں ، چاہے میں پاکستان میں دوپٹہ لوں یا سعودیہ میں عبایا ، مجھے ہر وقت آدمی کی آنکھوں میں حیوانیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیر ِ لب تمسخر ، بے جھجھک تاڈنا ، آوازیں لگانا ، اور وہ روح فرسا لمحہ جب بے بسی کا احساس مجھے منجمد کر دیتا ہے ، جب کوی بے دھڑک پاس سے ہاتھ لگا کر گزر جاتا ہے۔۔ جب میں احتجاج کے لیے منہ کھولنے لگوں تو پتہ چلتا ہے وہ ایک شخص نہیں ہے ،  جمِ غفیر ہے۔ میری آواز اس قوم کے ضمیر کے ساتھ مر جاتی ہے۔  میرا دل کرتا ہے  ، کہ جو آدمی اس معاشرے میں رہتے ہوے بھی عورت کے حقوق کا مذاق اڑاتا ہے ،  وہ بس ایک دن عورت بن کر سڑک کنارے چلے ،   پھر کبھی وہ اپنی سوچ میں مگن چلتا ہو اور کوی اس کے جسم سے کھیل کر جاے ، چوراہوں پر باپ بھای کی گالیاں سنے ، ہاں بس میں اسے سیٹ ملے ، ہاں نان اس کے پہلے لگیں ، اور پھر میں اس سے پوچھوں کہ آپ کا جسم ، آپ کی زندگی کسی اور کی مرضی ہو تو کیسا لگتا ہے ؟ اور جب کوی آپ کی تحقیر کو ایک پلڑے میں رکھے اور دوسرے پلڑے میں  آپ کی نگہبانی کا احسان رکھے تو یہ انصاف کیسا لگتا ہے ؟.  بس میں سیٹ اس لیے دیتے ہو نا کیونکہ اپنی صنف کی اقدار کا اندازہ ہے؟  سڑک پر ہمارے محافظ اس لیے بنتے ہو نا کیونکہ عورت کے لیے کوی راستہ محفوظ نہیں ؟  ۔ راستہ خطرناک کس نے کیا ؟ مجھے تحفظ نہیں۔ جواب چاہییے۔ مجھے مرہم نہیں ، نجات چاہییے  ((ح))

No comments:

Post a Comment